گلوان تصادم کے تین سال بعد ،بھارت نے کیا سیکھا؟؟؟



از محمد بلال افتخار خان

ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرون سے شروع ہونے والے بھارت چین تعلقات ،بھارتی ہٹ دھرمی اور یک طرفہ فیصلون کی وجہ سے ایک بڑے تصادم کی طرف گامزن ہیں۔۔ چین جس نے ماضی میں تصادم سے ہمیشہ گریز کی پالیسی اپنائی اور بھارت سے متنازع سرحد پر امن کے لئے کئی معاہدے کئے یہان تک کے اپنے کلیم شدہ علاقے سکم میں بھارت کو ٹریڈنگ پوسٹ بنانے کی اجازت تک دے دی ۔۔ وہی چین بھارت کے چین مخالف سرگرمیوں  کی وجہ سے چینی اعتماد کھو بیٹھا ہے مزید بران ۔پانچ اگست دو ہزار انیس کے کشمیر سے متعلق مودی سرکار کے یک طرفہ فیصلے اور پھر جاہریت کی کھلی دھمکیون نے چین کو جاہرانہ حکمت عملی اپنانے  پر مجبور  کر دیا ہے



پندرہ جون 2023 کو وادی گلوان  میں ہونے والے  تصادم کو تین سال ہو گئے ہیں، یہ تصادم کشمیر پر ہندوستانی حکومت کے یک طرفہ فیصلے کے بعد لداخ کے علاقے گلوان میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان ہونے والی ایک شدید جھڑپ تھی۔ اس تصادم  میں 20 ہندوستانی فوجی بشمول کمانڈنگ افیسر کرنل سنتوش بابو ، سالہ بہار رجمنٹ ہلاک ہوئے۔۔

اس جھڑپ کے بعد  سے اب تک بھارت اور چین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں، لیکن وہ سرحدی تنازع کے حل تک پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے خطے میں اپنی فوجی موجودگی میں بھی اضافہ کر دیا ہے جس سے مزید تنازعات کے امکانات کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں۔

بھارت چین سرحدی تنازع نے بھارتی فالٹ لائینز عیان کر دی ہیں۔۔ بقول بھارتی تجزیہ کار پروین سوہنی ، بھارتی فوج ایک ملٹری فورس تو ہے لیکن ملٹری پاور نہیں۔۔ اب تک گلوان واقعہ کے بعد سے کم از کم چین بھارت کے مابین تین بڑی جھڑپین ہو چکی ہیں جنہیں بھارتی فوج نے چھپانے کی کوشش کی ہے۔۔ چینی پی ایل اے سے ہونے والی ان جھڑپون نے بھارتی فوج کی قلعی کھول دی ہے اور سینا کی اہلیت پڑ کئی سوال بھی اُٹھائے جا رہے ہیں۔۔۔

بھارت سرکار اور فوج کے درمیان واضع خلیج بھی نظر آ رہی ہے۔۔ مودی سرکار  نقصانات ماننے کو تیار نہیں جبکہ فوج کے سابق افسران ، دفاعی تجزیہ کار اور میڈیا  اٹھارہ سو مربع کلومیٹر علاقہ ہاتھ سے نکل جانے کا واویلا کر رہا ہے۔۔۔ مشہور زمانہ دانشور  کلازویٹز  نے جنگ کو سیاسی پالیسی کا  متشدد تسلسل کہا تھا۔۔آج سیاسی پالیسی کے مقاصد کو طاقت سے حاصل کرنے کی ذمہ داری رکھنے والی فوج  اور مودی سرکار  ایک صفے پر ہر گز نظر نہیں آ رہے۔۔۔ بھارتی فوج بھی اخلاقی اور پروفیشنل پستی کی راہ پر ہے اور مودی کی خوشنودی کے لئے عام فوجیوں کی بے دریغ قربانی دی جا رہی ہے۔۔گلوان کی جھڑپ میں بھی سولہ بہار رجمٹ کے  افیسر کمانڈنگ سنتوش بابو  کو  بلی کا بکڑا بنایا گیا۔۔۔ چینی تیار تھے لیکن سیاسی لیڈر شپ کے سامنے نمبر ٹانگنے کے لئے  سی او کو طاقت کے اظہار کے لئے چینی کیمپ بھیجا گیا۔۔

حیرت انگیز تور پر چینی افواج طاقت رکھتے ہوئے  اب  بھی جاہریت کے موڈ میں نہیں۔۔۔ گزشتہ شنگریلہ ڈائیلاگ کے موقع پر چینی فوج کے سینئر کرنل کا کہنا تھا کہ چین نہیں سمجھتا کہ چین بھارت جنگ ہو گی۔۔جس کی وجہ ایک تو بھارتی فوج کا ماڈرنائز نا ہونا ہے تو دوسری طرف بھارت غیر ملکی گولہ بارو پر انحصار کرتا ہے جبکہ بھارت دفاعی انڈسٹری نہایت کمزور ہے۔۔ اور جنگ کی صورت میں جنگ کی رفتار کے حساب سے دفاعی ضروریات پوری کرنا بھارت کے لئے بہت مشکل ہو گا۔۔

ایک اور اہم  وجہ بھارتی فوج کی قابلیت ہے۔۔۔بھارتی فوج جنگ کی تین جہتوں میں لڑنے کے قابل ہے جن میں بحری ، بری اور فضائی  جہتین شامل ہیں جبکہ چین ان تین جہتون کے علاوہ سپیس  ،سائبر ، ایلیٹرو میگنیٹک سپیکٹرم   کی جہت میں خود دنیا کی سب سے مضبوط فوجی طاقت ،امریکہ۔۔کے لئے بھی چیلنج بنا ہوا ہے۔۔۔  بقول پروین ساہنی  سائبر ، اور ایکٹرومیگنیٹک طاقت روشنی کی رفتار پر کام کرتی ہے اس لئے  جنگ کی صورت میں چینی حکمت عملی میں رفتار اور جاہریت کا عنصر غالب ہو گا جسے بھارتی سینا یا فوج کے لئے سنبھالنا  تقریباً ناممکن ہو گا۔۔۔

گلوان جھڑپ کے تین سال بعد آج بھارتی سرکار اور فوج صرف آپٹیکس  کو مد نظر رکھے نظر آتی ہیں ۔۔ بھارت نے گلوان سے کچھ سیکھا نہیں سیکھا اور مودی سرکار اور سینا پڑانی ڈگر پر چلتی نظر آ رہی ہیں۔۔۔ ہندو توا سرکار  اپنے مسکلر نیشنل ازم  میں حقیقت شناسی سے انکاری ہے اور اپنی عوام کو  تباہی کے رستے کی جانب لے جا رہی ہے جبکہ بھارتی عوام  انفومیشن پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے حقیقت سے لا علم ایک الگ دنیا میں رہ رہی ہے۔۔۔ مغرب بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے ۔اس لئے بھارت کو نئے نئے ہتھیار بیچ رہا ہے۔۔۔لیکن کیا کوئی بھارت کی جنگ بھارت کے لئے لڑے گا؟؟؟  بھارتی سرکار اس کا جواب ڈھونڈنے  میں عدم دلچسپی کا شکار ہے

  

Comments

Popular posts from this blog

مشرق واسطہ کا سیاسی نظام، 911کے 23 سال بعد

تجزیہ : ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟؟؟

لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی حقیقت