مشرق واسطہ کا سیاسی نظام، 911کے 23 سال بعد

 



از:محمد بلال افتخار خان

 

گیارہ ستمبر   دوہزار گیارہ کے حملوں کو تئیس  سال ہو چکے ہیں۔۔ ان  افسوسناک حملوں سے جہاں  تین ہزارکے لگ بھگ افراد جانبحق ہوئے وہیں ان حملوں نے امریکی   عقابوں کو  پیکس امریکانا کی خواہش  پوری کرنے کے لئے  فری ہینڈ یا کھلی چھوٹ دی۔۔۔ ان حملوں کے بعد دنیا بھر میں دہشتگردی کی جنگ کا آغاز ہوا اور امریکی انتظامیہ نے اقوام عالم کو صاف صاف لفظوں میں بتا دیا کہ یا تو وہ اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیں یا پھر انہیں مخالف سمجھا جائے گا۔۔۔

گیارہ ستمبر کے حملہ آور چونکہ تمام مسلمان تھے اس لیئے پہلے مرحلہ کے توڑ پر افغانستان پر حملہ ہوا اور چند ہفتوں میں ہی طالبان حکومت ختم کر کے امریکی حمایت یافتہ حکومت بنا دی گئی۔۔۔دو ہزار تین میں ویپن آف ماس ڈسٹرکشن سے متعلق جھوٹی انٹیلیجنس کے  نام پر عراق پر حملہ کیا گیا اور صدام حکومت گرا دی گئی۔۔

عراق جنگ نے مشرق وسطی کی سیاست کا رخ تبدیل کر دیا۔۔۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والے مشرق وسطی کے سیاسی نظام میں ایک طرف امریکی  حمایت یافتہ بادشاہتیں اور امارات  تھیں تو دوسری طرف عرب نیشنلسٹ حکومتیں جن کو  سویت یونین کی حمایت حاصل تھی۔۔۔

عراق پر امریکی قبضے کے بعد عراق بلخصوص اور مشرق وسطی میں بلعموم  نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم  واضع ہوئی۔۔ ایک جانب کُرد،جن کو  انیس سو نوے کی دھائی کے آخر میں ہونے والے ترک شام معاہدے، ادنا  اکارڈ کے بعد اسرائیل نے حمایت میں لے لیا تھا اور جنہوں نے عراق پر حملے کے لئے امریکہ کو انٹیلی جنس  دی،وہ تھے، دوسری جانب شیعہ  اور پھر سنی۔۔۔ اس کے علاوہ عرب کرد تنازع نے بھی شدت اختیار کی اور یہ تنازعات پھیلتے پھیلے شام، بحرین  اور سعودی عرب تک جا پہنچے۔۔۔

اسی طرح روس کے ٹوٹنے کے بعد سے امریکی رویہ سعودی عرب سے بدل گیا تھا اور خصوصاً کلنٹن انتظامیہ کے رویے نے سعودی حکومت کو کافی پریشان کر رکھا تھا۔۔۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد گو  صدر بش انتظامیہ نے سیاسی لحاظ سے سعودی عرب کی مدد کی کافی کوشش کی لیکن امریکی میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی نے سعودی عرب پر کھل کر تنقید کی جس کی وجہ سے سعودی عرب کو کافی ریفارمز لانی پڑیں ۔۔

بش کے بعد اوبامہ کی حکومت آئی اور اس دور میں بھی انسانی حقوق کے نام پر سعودی عرب پر دباؤ ڈالا گیا اور پھر عرب سپرینگ میں امریکی انتظامیہ نے سعودی خواہشات کے برخلاف انقلابیوں کی حمایت کی۔۔ دو ہزار پندرہ میں سعودی شاہ عبدللہ بن عبد العزیز کی وفات کے بعد سلمان بن عبد العزیز  سعودی عرب کی بادشاہ بنے اور اُن کے بیٹے محمد بن سلمان نے  سعودی پالیسی میں واضع تبدیلی لاتے ہوئے تاریخ میں پہلی بار امریکہ کے علاوہ دیگر بڑی طاقتوں خصوصاً چین  اور پھر روس سے تعلقات بڑھائے اور امریکی صدر بائیڈن کو مجبور کیا کہ وہ

 سعودی عر ب کی اہمیت اور اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔۔

 

شام جس پر عرب نیشنلسٹ بعث پارٹی کی حکومت تھی وہاں گیارہ ستمبر سے پہلے ہی  حفیظ الاسد کی وفات کے بعد اُن کا بیٹا بشار الاسد حکومت سنبھال چکا تھا۔۔۔ سن  دو ہزار کے اوائیل میں شروع ہونے والی دانشورون کی جانب سے  ریفارمز کی تحریک جسے ڈمسقس اسپرینگ کا نام دیا گیا ایک اہم تحریک تھی جو شام میں  الاسد حکومت کی مضبوطی اور سرد جنگ کے بعد کے عالمی منظر نامے میں  شام میں ایک مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتی تھی مگر بد قسمتی سے  بشار الاسد انتظامیہ نے  اس تحریک کے سرگرم دانشورون  پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا اور اس تحریک  کو دبا دیا۔۔۔ جس کا اثر  دو ہزار گیارہ  میں عرب اسپرینگ  اور خانہ جنگی کی صورت میں نکلا  جس  سے شامی حکومت ابھی تک مکمل  طور پر نکل نہیں سکی۔۔

ایران جو انیس سو انتہر کے اسلامی انقلاب کے بعد سے امریکی کے عتاب کا شکار تھا۔۔ گیارہ ستمبرکے بعد  اس نے  پر امن ایٹمی پروگرام  پر توجہ مرکوز کر دی۔ جس کی وجہ سے امریکہ کی جانب سے ایک طرف اسے مذید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف عراق پر امریکی قبضے کے بعد پیدا ہونے والی فرکہ وارانہ

 کشیدگی کی لہر کی وجہ سے ایران کے جی سی سی ممالک کے ساتھ بھی  تعلقات کشیدہ ہوئے خصوصاً عرب اسپرینگ جب قطیف اور بحرین پہنچی تو مسلکی بنیادون پر  ایران  عرب بین الاقوامی تعلقات میں کڑواہٹ آئی۔۔۔

میرے تجزیے کے مطابق امریکہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن تھا۔۔ اُس کی پالیسیز نے اوئیل میں کرد، شیعہ اور سنی  پولز بنائے تاکہ یہ آپس میں دست گریبان رہین اور اسرائیل  بیلنسر کا کردار ادا کرے اور مذید  مضبوط ہو۔۔اسی دور میں شدت پسند تنظیموں اور  اضافہ ہوا اور القاعدہ ان عراق سے دولت اسلامیہ جیسے شدت پسند  تنظیم نے جنم لیا۔

 اسی طرح میرے تجزیے کے مطابق  عرب اسپرنگ کی حمایت  عرب عوام سے محبت نہیں بلکہ عراق اور عرب میں ڈیکٹیٹرز  اور امریکی پالیسیون کی وجہ سے بڑھتے ہوئے پریشر کو   ڈی  پریشرئز  کرنے کے لئے کی گئی اور آخر میں جو آڈر آیا وہ امریکی مفاد میں تھا۔۔۔

امریکی پالیسویوں نے عرب ممالک خصوصاً سعودی عرب کے سامنے امریکی مقاصد کھول دیئے  اور  ہم نے دیکھا کہ سعودی عرب سمیت اہم عرب ممالک نے چین اور دیگر ممالک سے تعلقات استوار کرنے شروع کر دیئے تاکہ صرف امریکہ پر انحصار  خود  اُن کیاپنے مفادات کے لئے خطرناک  ثابت ہو رہا تھا۔۔۔ اسی لئے ہم نے  دو ہزار اٹھارہ سے ہی دیکھا کہ عرب امارات  اور مصر کے ذریعے سعودی عرب  نے شام کے بشار الاسد کی مدد شروع کیاور اب بلا آخر شام دوبارہ  عرب لیگ میں آ چکا ہے۔۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران کے درمیان چین کی مدد سے دوبارہ تعلقات شروع ہوئے جن میں ایک دوسرے کا احترام واضع نظر آ رہا ہے۔۔۔ جی سی سی ممالک خصوصاً سعودی عرب  بریکس میں شامل ہو چکا ہے جسے مغرب مخالف اتحاد یا پلیٹ فارم قرار دیا جا رہا۔۔۔


ٹرمپ دور میں گو  اہم عرب ممالک پر امریکی اثر و رسوخ بڑھا اور ابراہام اکارڈ جیسا معاہدہ  وجود میں آیا لیکن بائیڈن انتظامیہ کی پالیسیز نے ایک بار پھر عرب ممالک کو امریکہ سے دور کر دیا۔۔۔


Comments

Popular posts from this blog

تجزیہ : ترکی کی حکمت عملی کیا ہے؟؟؟

لبرل اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی حقیقت