کیا بھارت ٹو فرنٹ وار کی تیاری کر رہا ہے؟؟؟
بھارت ایک بار پھر کسی جاہریت کی تیاری کر رہا ہے۔۔۔ اطلاعات کے مطابق اس بار بھارت کا پلان مقبوضہ کشمیر کے اور حصہ کرنے کا ہے۔۔۔
بھارت لداخ کو ریاست بنانے کا ارادہ رکھتا ہے جبکہ مقبوضہ وادی میں مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے لئے ہندو پنڈتوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو دھرادھر ڈومیسائیل دیئے جا رہے ہیں
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تیزی سے پیراملیٹری فورسس کو مقبوضہ وادی میں لایا جا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے لفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی بھی دہلی امد و رفت میں اضافہ ہوا ہے جہاں اُن کی اجیت دول اور امت شاہ سے متعدد ملاقاتین بھی ہوئی ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کے مسئلہ پر 24 جون کو کل جماعتی کانفرنس بلا لی ہے اور اس سلسلے میں گیارہ جماعتوں کو ابھی تک دعوت بھی دے دی گئی ہے۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس کانفرنس کا مقصد مقبوضہ جموں اور کشمیر میں نئی حلقہ بندیون پر تبادلہ خیال کرنا ہے
جمعے کے روز امت شاہ ، اجیت دووال ، لفٹینٹ گورنر مقبوضہ کشمیر منوج سہنا ، ہوم سیکریٹری اجے بھلا اور پیراملیٹری کمانڈرز کی ایک اہم میٹنگ ہوئی۔۔جس میں سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔۔۔اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل پولیس مقبوضہ جمون اور کشمیر نے جمون اور کشمیر کی سیکیورٹی صورتحال پر پریزنٹیشن دی اور چوکس رہنے کا مشورہ دیا
جمعرات اور جمعے کے روز بھارتی کور کمانڈرز کی ملاقاتین ہوئی ہیں جن میں چین کی جانب سے مغربی لداخ اور میکموہن لائیں پر فوجی نقل و حرکت پر غور ہوا۔۔اور چینی سرحد پر انفراسکچر کی تعمیر اور بہتری میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا گیا۔۔۔
چھ اگست دو ہزار انیس کو امت شاہ نے بھارتی پارلیمنٹ میں چین سے اکسائی چن واپس لینے اور پاکستان سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان واپس لینے کا اعلان کیا تھا۔۔۔
بھارت جہان ایک طرف مقبوضہ وادی میں تیزی سے پیراملٹری فورسس لا رہا ہے وہاں یہ بھی اطلاعات ہیں کہ لائین آف کنٹرول پر بنکر بنانے کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے۔۔ اور اب تک آٹھ ہزار بنکر تعمیر یا اپ گریڈ کیئے جا چکے ہیں۔۔۔
بھارتی آرمی چیف جنرل نروانے اور جنرل بیپن راوت متعدد انٹرویوز میں پاکستان پر دبے لفظون الزامات لگا چکے ہیں جس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس سیزفائر کو بھارت اپنے دفاع کی مضبوطی کے لیئے استعمال کر رہا ہے جبکہ جاہریت کے لئے الزامت کے ذریعے زمین بھی ہموار کر رہا ہے۔۔
پانچ اگست دو ہزار انیس کے فیصلے کے بعد بھارت نے کشمیریوں ، پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت نے چین کے ساتھ بھی محاظ کھول دیا ہے۔۔۔ اب اگر وہ کشمیر کے معاملے پر کوئی غلط قدم دوبارہ اُٹھاتا ہے تو اُسے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے رد عمل کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔۔۔
جنرل بیپن راوت جو اب بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف ہے پہلے آرمی چیف تھا۔۔۔ اُس نے ہی ٹو فرنٹ وار کا نظریہ دیا تھا جو اب حقیقت بنتا نظر آ رہا ہے۔۔۔
لیکن بھارت اس میں کتنا کامیاب ہو گا اس کا ہمیں مشرقی لداخ کی صورتحال سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے۔۔۔
بھارت اور چین کے درمیان پچھلے سال لداخ کی وادیٔ گلوان میں ہونے والے تصادم کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ 15 اور 16 جون کی شب ہونے والی اس جھڑپ میں 20 بھارتی فوج ہلاک ہو گئے تھے۔
سرحدی تنازع پر ہونے والی اس کشیدگی نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا تھا اور سرحدوں پر دونوں ممالک کی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ دیکھا گیا تھا جب کہ دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات بھی متاثر ہو ئے تھے۔
بھارت نے تاریخ میں پہلی بار لائیں آف ایکچول کنٹرول پر ساٹھ ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں جبکہ کور کمانڈر لیول پر ابتک مزاکرات کے گیارہ سیشن ہو چکے ہیں
مزاکرات کے نتیجے میں چین اور بھارت نے پینگانگ جھیل سیکٹر میں اپنے فوجی پیچھے کئے ہیں جبکہ بھارت نے کیلاش رینج سیکٹر میں فوجی پیچھے کئے ہیں
ڈسپانگ، گوگرا ، ہاٹ اسپرنگ ، گلوان وادی میں ابھی تک ڈیڈ لاک نہیں ٹوٹ سکا۔۔ اور معاملات ابھی تک اسی صورتحال پر ہیں
چند دن پہلے چینی فضائیہ کے تقریباً دو درجن لڑاکا طیاروں نے مشرقی لداخ خطے کے سامنے ہونے والی جنگی مشق میں حصہ لیا ۔ یہ جنگی مشق اسی ایئر بیس سے کی گئی تھی جہاں سے چینی فوج نے مشرقی لداخ میں گذشتہ سال اپنے فوجیوں کو کمک فراہم کی تھی۔
چینی فضائیہ نے تبت اور سنکیانگ صوبے کے الگ الگ ایئر بیسز سے جنگی مشق کو انجام دیا ۔ ان ایئر بیسوں میں ہوٹان ، گر-گنسا ، کاسگر ، ہوپنگ ، ڈونگا-جونگ ، لنجھی اور پنگٹ شامل ہیں۔
ان مشقوں میں چینی فوج کے ائر ڈفنس سسٹمز نے بھی حصہ لیا جس کے بعد متنازعہ سیکٹرز میں ایک بار پھر کشیدگی نظر آئی۔
چینی مشقوں کے خوف سے ہندوستان نے شمالی سرحدوں میں رافیل لڑاکا طیاروں کو تعینات کیا ہے۔ اس کے علاوہ میگ 29 ایئر کرافٹ کی ایک پوری ڈیٹیچ منٹ لیہہ- لداخ تعینات ہے ۔
کچھ دن پہلے بھارتی ایئر چیف مارشل آر کے ایس بھدوریا نے لیہہ لداخ کا دورہ کرکے ایئر فورس کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا تھا ۔
حال ہی میں بھارتی چیف آف ڈیفنس سٹاف جنرل بیپن راوت نے چین کے ساتھ ڈس انگیجمنٹ کی بھارتی خواہش کا اظہار کیا تھا تاہم انہوں نے اقرار کیا تھا کہ بھارت اور چین ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے
بھارت چین سرحدی کشیدگی کی وجہ بھارت کا پانچ اگست دو ہزار انیس کا اقدام ہے۔۔۔ کشمیر کا سٹیٹس تبدیل کرنے کے بعد بھارتی وزیر امیت شاہ نے جیس سے اکسائی چن واپس لینے کی دھمکی دی تھی
گو بھارت اور چین نے سرحدی تنازعات کو کافی حد تک حل کر لیا تھا لیکن پانچ اگست دو ہزار انیس کے فیصلے نے معاملات بگار دیئے۔۔۔
سن انیس سو انسٹھ میں چو این لائی نے ایک مکتوب کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کو لائین آف ایکچول کنٹرول کا چینی آئیڈیا بھیجا تھا جسے بھارتی وزیر اعظم نہرو نے رد کر دیا تھا۔۔ آج جب بھارت کشمیر کے دو حصے کر چکا ہے تو چین ایک بار پھر انیس سو انستھ میں چو این لائی کی بھیجے گئے نقشےکے مطابق سرحدون پر اصرار کر رہا ہے۔۔۔
پینگونگ اور کیلاش میں بھی چین انہی علاقوں سے واپس گیا ہے جو انسٹھ کے نقشے کے مطابق چین کی ملکیت نہیں
بھارتی تجزیہ کاروں کے مطابق چین اپنے نقشے کی لائین آف ایکچول کنٹرول سے ایک انچ بھی آگے نہیں آیا۔۔
چین نے بھارتی ریاست اور فوج کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔۔ پچھلے سال جب حالات کشیدہ ہوئے تھے تو بھارتی فوجی اور غیر فوجی تجزیہ کار کہہ رہے تھے کہ چین بھارتی زمین کے اٹھارہ سو سے دو ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے پر قابض ہے۔۔ جس کا بھارتی وزیر اعظم نے صاف انکار کیا تھا
پچھلے سال کی کشیدگی سے پہلے بھارتی افواج لائین آف ایکچول کنٹرول سے اسی میل پیچھے بیٹھی تھیں اور پٹرولنگ پارٹیز گشت واپس کر کے واپس آ جاتی تھیں۔۔ اب بھارت کو لائین آف ایکچل کنٹرول کے قریب انفراسٹکچر بنانا پڑ رہا ہے جو ساٹھ ہزار سے زائید افواج کی ضروریات پوری کر سکے۔۔
بھارتی جرنلسٹ اجے شکلا کے مطابق لداخ پر کشیدگی کی وجہ سے بھارتی بجٹ بڑھانا پڑے گا جو کرونا اور بھارتی معاشی حالت کی وجہ سے نہایت تکلیف دہ ہو گا۔۔ اگر بھارت بجٹ نہیں بڑھاتا تو پھر انڈو پیسیفک میں بھارتیآپریشنز اور پٹرولنگ ختم کرنے پڑے گی کیونکہ وہ لگایا جانے والا پیسہ اب لداخ میں تعینات افواج پر خرچ ہو گا
پہلے بھارت کو کبھی اس سیکٹر میں فوج تعینات نہیں کرنی پڑی تھی ۔۔اب دو ماونٹین ڈویزنز سمیت ایک میکینایزڈ ڈویزن بشمول دیگر سپورٹنگ ٹروپس اسے تعینات کرنے پڑ گئے ہیں ۔۔۔
پاکستان کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں بھارت کو چین کی طرف سے خوف نہیں رہا لیکن اب بھارتی دفاعی تجزیہ کار اس خوف کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر پاک بھارت جنگ ہوتی ہے تو چین بھارت پر نا قابل برداشت دبائو بڑھا سکتا ہے اور جنرل پیپن راوت کا دو طرفہ جنگ کا نظریہ ایک خوفناک خواب بن کر سامنے آ رہا ہے۔
لداخ کے معاملہ میں تمام حرکیات یا ڈینیمکس چین کے کنٹرول میں ہیں۔۔ چین بھارت کا دوسرا بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے اور چین اپنے سستے مال کی وجہ سے چین کی منڈیوں پر چھایا ہوا ہے۔۔ یہی وجہ ہے چین کے خلاف بھارتی پابندیان ناکام رہیں اور بھارت کو چینی انویسٹمنٹ کے لئے کئی معاملات پر خاموشی اختیار کرنی پڑی
مودی حکومت بھی ایک مخمصے کا شکار ہے۔۔ اگر وہ عوام کو سچ بتاتی ہے تو اپنی مقبولیت کھوتی ہے اور اگر جھوٹ بولتی ہے تو بھارتی علاقہ کھونا پڑتا ہے
لداخ میں کشیدگی کا سب سے زیادہ فائیدہ امریکہ کو ہوا ہے جس خریدے گئے ڈرونز آج کل لداخ پر لائین آف ایکچول کنٹرول کی نگرانی کر رہے ہیں جبکہ اُس کے ٹرانسپورٹ جہاز ، اسلحہ ہیلی کاپٹر وغیرہ بھارت خریدنے پر مجبور ہے۔۔
Comments
Post a Comment