نیا عالمی نظام
جنگ عظیم دوم کے بعد ابھرنے والے عالمی نظام میں سوشلسٹ بمقابلہ کیپیٹلسٹ اقوام ایک دوسرے سے مقابلے میں تھیں۔۔ ایک طرف روس سوشلسٹ بلاک کو لیڈ کر رہا تھا تو دوسری طرف امریکہ کیپیلسٹ بلاک کو لیڈ کر رہا تھا۔۔
روس کے زوال کے بعد یہ کولڈ وار اختتام کو پہنچی اور امریکہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے سامنے آیا۔۔ عراق جنگ میں اُس نے دنیا کی تاریخ میں پہلی بار گلوبل ریچ کا مظاہرہ کیا۔۔ امریکہ سے بومبرز اُڑے ، عراق پر بمباری کی اور بغیر زمیں چھوٗے دنیا کا چکر مکمل کر کے واپس اپنی بیسسیز پر آن اُترے۔۔
اس زمانے میں امریکی حکومتوں نے پیکس امریکانہ کے قیام کی بھر پور کوشش کی۔۔ امریکی تھینک ٹینک پراجیکٹ فار نیو امریکن سینچری نے انیس سو اتھانوے میں پیکس امریکانہ کے لئےکسی نئے پرل ہاربر کی ضرورت کا اظہار کیا تاکہ امریکہ اپنی طاقت کے استعمال اور اظہار کے لئے جواز مل سکے۔۔
اسی زمانے میں امریکہ نیوکان تھینک ٹینک سے منسلک اور مشہور امریکی پولیٹیکل کومینٹیٹر رابرٹ کیگن نے اپنی شہر اقاق کتاب
Of Paradise and Power: America and Europe in the New World Order
میں لکھا کہ اگر ایک شخص کو جنگل میں کام پرتا ہے جہاں ایک خونخوار ریچھ رہتا ہے اور اس شخص کے پاس صرف ایک چاکو ہے۔۔۔ تو اس شخص کی کو شش ہو گی کہ جنگل میں اُس کا سامنا کبھی اُس ریچھ سے نا ہو۔۔لیکن اگر اس شخص کے پاس آٹو میٹک ہتھیار ہے تو پھر یہ شخص پہلے ریچھ کو مارے گا اور پھر اپنا کام کرے گا۔۔۔ کیگن کے مطابق یہی یورپ اور امریکہ کی پالیسیز کے درمیان فرق ہے۔۔۔ یورپ کمزور ہے اس لئےڈپلومیسی کو ترجیع دیتا ہے جبکہ امریکہ مضبوط ہے اسی لئے وہ پہلے خطرے ختم کرتا ہے اور پھر کام انجام دیتا ہے
۹ستمبر کے حملوں نے امریکی یونیلیٹرل ازم کی پالیسیکے لئے جواز پیدا کئے اور دہشتگردی کی جنگ کے نام پر امریکہ نے ہر اُس خطے میں دخل ہونے کا جواز مہیا کیا جہاں امریکہ جانے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ اپنے عالمی نظام کو دوام بخش سکے۔۔
امریکہ نے افغانستان کے بعد عراق فتح کیا۔۔اور پھر عرب اسپرنگ کی حمایت کرتے ہوئے مڈل ایسٹ کا سیاسی آڈر تبدیل کر دیا۔۔
مشرق وسطٰی
دوسری جنگ عظیم کے بعد مشرقی وسطٰی اور شمالی افریکہ میں سویت ہمایت یافتہ بعث پارٹی اور امریکی ہمایت یافتہ بادشاہتیں قائم تھیں۔۔ مصرمیں عرب نیشنلٹ سویت یونین کی اتحادی حکومت قائم تھی مگر ۱۹۷۳کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد خصوصاً کیمپ ڈیوڈ اکارڈ کے بعد یہ بھی امریکہ کے قریب ہو گیا۔۔
سویت یونین کے خاتمے کے بعد یہ عرب نیشنلسٹ یا تو امریکہ اتحاد کے ذیر اثر آگئے یا پھر یہاں عرب سپرنگ کے نام پر انقلاب لانے کی کوشش کی گئی۔۔۔
عراق پر امریکی قبضے کے بعد خطہ عرب میں ایک نئے آڈر کی بنیاد پڑی جس میں ایک طرف لاثانی تقسیم ہوئی تو دوسری طرف فرکہ وارانہ تقسیم بھی شدت اختیار کر گئی۔۔ اس سب کا فائیدہ اسرائیل کو پہنچا جو ڈومینینٹ طاقت کی حیثیت سے سامنے آیا۔۔۔
اسی امریکی یونیلیٹرلازم کے دور میں روس اور چین قریب آنے لگے کیونکہ امریکہ اہم عالمی معاملات میں دونوں ہی کے مفاد ایک دوسرے کو کومپلیمنٹ کرتے ہیں۔۔
اس وقت چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے اور کرونا کے اس دور میں صرف چینی معیشت ہی مثبت اشارے دے رہی ہے۔۔
امریکہ چین کی ترقی کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔۔۔اسی لئے کواڈ جیسی ایک ڈھیلی پارٹنر شپ کو چین کے خلاف ایشیائی نیٹو بنانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔۔
اس سلسلے میں اُس کی انڈو پیسیفک حکمت عملی ناکام نظر آ رہی ہے جس کی وجہ ایک تو آسیان ممالک کی اس اتحاد میں عدم دلچسپی ہے تو دوسری طرف چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹئو کے ذریعے عالمی ممالک کو معاشی ترقی میں حصہ دار بنانے کی بنیاد رکھ دی ہے۔۔۔ خود چین سے تنازعات رکھنے والے ممالک جیسے چین اور اسٹریلیا بھی اس منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں
خود بھارت کو اس وقت اس منصوبے نے گھیر لیا ہے۔۔ بنگلہ دیش بھارت سے دور ہو رہا ہے اور پاکستان سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں ہے۔۔ نیپال بھارتی بلاکیڈ کے بعد سے بھارت سے دور ہو چکا ہے اور اب چین کی مدد سے مستقبل میں ایسے بلاکیڈ سے بچنے کے لئے تبت تک ریل اور روڈ بنا رہا ہے۔۔
سری لنکا جو تین دھائیوں تک بھارتی سپانسر خانہ جنگی کا شکار رہا وہ بھی چین کے اس منصوبے کا حصہ ہے اور چین کے خلاف تمام بھارتی اور امریکی پلاننگ کو رد کر چکا ہے۔۔۔
مشرق وسطٰی میں عرب لیگ نے سعودی عرب کی پیروی کرتے ہوئے امریکی کیمپ اختیار کر لیا ہے۔۔ عرب امارات ، بحرین ،عمان اور مراکش کے بعد دیگر عرب ممالک بھی اسرائیلی ہاتھ پکڑنے کو بیتاب ہیں۔۔۔
اس تمام صورتحال میں صرف ترکی اور ایران فلسطینیوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔۔
خود شام میں ۹ سالہ خانہ جنگی کے بعد متحدہ عرب امارات، عمان اور مصر سعودی ہمایت سے پھر بشار السد شروع کر چکے ہیں۔۔۔انٹرنیشنل پریس کے مطابق دو ہزار اٹھاران سے دو ہزار بیس تک متحدہ عرب امارات نے شامی حکومت کو تین ارب ڈالڑ کی امداد دی۔۔۔
عرب ممالک کی شام پر محربانی کی ایک وجہ حکومت کے اخوان المسلیمون کے خلاف آپریشن ہیں جنہیں بادشاہتین اپنے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔۔
ایران انقلاب ایران کے بعد سے امریکی نشانے پر ہے۔۔ ایران بھی اوبور کا حصہ بن چکا ہے اور چند ماہ پہلے ہی اس ے ۴۰۰ ارب ڈالڑ کا چین سے معاہدہ کیا ہے۔۔۔
یورپ بھی اس وقت تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔۔۔ ایک طرف یوکرین ، ہنگری جیسے ممالک امریکی پابندیوں کے شکار ترکی کی جانب آ رہے ہیں تو دوسری طرف جرمنی بھی امریکی کیمپ سے آزاد ہوتا نظر آ رہا ہے۔۔۔ روسی پائپ لائن منصوبے نارڈ سٹریم ۲ پر امریکی مخالفت کے باوجود کام شروع کر چکا ہے۔۔۔
اسی طرح جلد ہی یورپی یونین اور چین کے درمیان معاہدہ دستخت ہونے جا رہا ہے جس میں چین کئی سہولیات یوربی یونین کو دے رہا ہے جس کے بعد امریکی اثر مذید کم ہو گا
مشرق بعید میں بھی
RECP
معاہدے کی وجہ سے خطہ معاشی انٹیگریشن کی راہ میں ہے۔۔۔ آسیان پہلے ہی نیوٹرل رہنے کا اعلان کر چکا ہے اور اکتوبر میں انڈونیشیا نے امریکی کو جاسوس طیارون کی ری فیولنگ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔
دنیا میں
Re alignment
ہو رہی ہے اور موجودہ صورتحال باکل جنگ عظیم اور سے پہلے کی بن چکی ہے۔۔
Comments
Post a Comment