پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی
تیزی سے بدلتے ہوئے
عالمی منظر نامے میں پاکستان کی پالیسی میں بھی شفٹ آتا نظر آ رہا ہے ۔۔۔چند روز پہلے وزیر
اعظم پاکستان عمران خان نے دنیا نیوز کے اینکر کامران خان کو ایک اہم انٹر ویو دیا جس میں پاکستان کی فارن پالیسی میں آنے
والی تبدیلی کی جانب اشارے دیئے۔۔۔
وزیر اعظم نے سب سے
پہلے تو عالمی صف بندی میں چین کے ساتھ
کھڑے ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ وابسطہ ہے۔۔
انہوں نے سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ
امریکہ نے پاکستان کو استعمال کیا ہے مگر اب وہ افغانستان کے معاملے میں پاکستان
کا پارٹنر ہے۔۔۔ جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستان اب امریکہ کے لئے کچھ خاص کرنے
کو تیار نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ برابری کے تعلقات چاہتا ہے۔۔۔
سعودی عرب کے ہوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی اپنی
پالیسی ہوتی ہے مگر سعودی عرب نے کئی مشکل
مراحل میں پاکستان کی مدد کی ہے۔۔۔ اس سے تاثر یہ مل رہا ہے کہ اب پاکستان نے
سعودی عرب کے ہوالے سے بھی پالیسی میں کچھ تبدیلی کی ہے۔۔۔ ہم سعودی عرب سے دوستی
رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کے کئی معاملات میں پاکستان اور سعودی
عرب کے پالیسیز ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتین اور دونوں ممالک کا یہ حق ہے کہ
وہ اپنے مفاد کے مطابق چلین ۔۔۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم نے اسرائیل کو نا تسلیم کرنے کے عزم کا اظہار کیا اور صاف
لفظون میں کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچے گا ۔۔۔ دوسری
بات یہ کہ پاکستان آج بھی فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے اورچاہتا ہے کہ مسئلہ فلسطین
کا حل فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق ہو۔۔
انٹرویو میں وزیر اعظم نے بانی پاکستان کے ویزن کے مطابق پاکستان کی
اتحاد بین المسلمیں پر بھی پالیسی بیان دیا ۔۔۔ اور اس بات کا عندیہ دیا کہ گو
پاکستان کا مستقبل چین کے ساتھ ہے لیکن جہاں عالم اسلام خصوصاً عرب ممالک کی بات
آئے گی وہاں ہم اتحاد امت کی جستجو کریں گے
دنیا میں بڑی تیزی سے تبدیلیان رونما ہو رہی ہیں
خصوصاً والڈ آڈر میں تبدیلیاں واضع ہوتی
جا رہی ہیں۔۔۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت
سے ابھرا اور یوں بائی پولریٹی نے دنیا
یونی پولیریٹی کے فیز میں داخل ہو گئی۔۔۔ اس فیز میؓں امریکہ نے ایک ایسے آڈر کو
جنم دینے کی کوشش کی جس میں امریکہ کی جانب سے طاقت کا استعمال بے دھراک کیا گیا۔۔۔ مثلاً عراق پر نا جائز پابندیا
لگائی گئیں، اور پھر ویپن آف میس ڈسٹرکشن
کے بہانے سےصدام حکومت گرا کر عراق پر
قبضہ کر لیا گیا۔۔۔ اس عرصے میں
اسلامی شدت پسندی کے نام پر مسلم ممالک پر من پسند تبدیلیوں کے لئے دبائو بڑھایا
گیا۔۔۔ مخالف حکومتوں کے خلاف عوام کو بھڑکایا گیا اور پیکس امریکانا کے لئے ہر ہربہ استعمال کیا گیا۔۔۔
سویت یونین ٹوٹ چکا تھا اور روس کے پاس وہ طاقت نہیں تھی کہ
وہ امریکہ کو ڈائریکٹ چیلنج کر سکے۔۔۔کیمونزم کے بعد جس کیپٹل ازم کو روس میں رواج
ملا اُسے خود مغربی تجزیہ کار کریمنل کیپٹل ازم
کہہ رہے تھے۔۔۔ ایسے میں چین بھی خاموشی سے خود کو ڈیویلپ کر رہا تھا۔۔۔ اپنی انڈسٹریل طاقت بڑھا
رہا تھا۔۔۔
پھر وہ وقت آیا کہ سرد جنگ میں مخالف رہنے والے چین اور
روس ایک دوسرے کے قریب آنے لگے اور آہستہ آہستہ اس پارٹنر شپ کے نتائج سامنے
آنے لگے۔۔۔
امریکہ کنزروئیٹیو تھنک ٹینک سے تعلق رکھنے والے رابرٹ کیگن نے اپنی کتاب آن
پیراڈائز ائینڈ پاور میں یونی پولر والڈ میں امریکی پالیسی کی کچھ اس طرح
تاریف کی۔۔۔ وہ لکھتے ہیں۔۔۔
اگر آپ کو کوئی کام ایسے جنگل میں پڑے جہاں ایک خون خوار
ریچھ رہتا ہو اور آپ کے پاس صرف ایک خنجر ہو تو آپ کی کوشش ہو گی کہ جنگل میں
آپ کا سامنا ریچھ سے نا ہو ۔۔جبکہ اگر آپ کے پاس آٹومیٹک گن ہو تو آپ
پہلے ریچھ ماڑین گے اور پھر اپنا کام
نپٹائین گے۔۔۔
911 کے واقعات کے بعد خصوصاً ہم نے دیکھا کہ امریکہ کی
Preemptive
پالیسی سے شروع ہونے والی حکمت عملی
Anticipatory Self Defense
یا خطرہ پیدا ہونے سے پہلے ہی اُس کے تدارک کی پالیسی پر آ
کر رکی۔۔۔۔ اور ان ہی وجوہات سے وہ حالات پیدا ہوئے جنہوں نے نئے ولڈ آ ڈر کی
بنیاد رکھی۔۔
آج دنیا واصع توڑ پر دو کیمپس میں تقسیم ہوتی نظر آ رہی
ہے ایک جانب 2019 کے ڈیٹا کے مطابق دینا کی صف اول کی معیشت امریکہ ہے تو دوسری طرف دنیا کی دوسری بڑی
معیشت یعنی چین جس کے ساتھ روس کھڑا ہے۔۔۔ گو دونوں ممالک میں اتحاد کا کوئی
معاہدہ نہیں لیکن دونوں ممالک بین الاقوامی امور میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔
2013سے چینی حکومت
ایک عظیم الشان تجارتی منصوبے یعنی بیلٹ ائینڈ روڈ انیشیٹیو یا پھر
ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے پر کام کر رہی
ہے ۔۔ اسی منصوبے کا ایک پراجیکٹ سی پیک ہے جو بین الاقوامی تجارتی
رابطے بڑھانے کا منصوبے کا ایک
حصہ ہے جو چین، پاکستان اور۔۔ او بر ۔۔۔
میں شام ممالک کے لئے معاشی اعتبار سے
بہت فائیدہ مند ہو گا۔۔۔ اور چین کو تجارت
کے لئے بحری راستوں کے علا وہ زمینی آپشن بھی میسر آ جائے گا۔۔۔ اس وقت 130 سے
زیادہ ممالک اس منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں۔۔۔
امریکہ اس منصوبے کی شدید مخالفت کر رہا ہے کیونکہ چین اپنی
سوفٹ پاور اور ممبر ممالک کے ساتھ باہمی
تعاون کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔۔۔۔ وہ ممالک بھی اس عظیم منصوبے کے
ثمرات سمیٹنے کے لئے چینی منصوبے میں شامل ہو رہے ہیں جو ماضی میں چین کے مخالف
رہے ہیں۔۔۔
چین اور روس کا اشتراق امریکہ کے مفادات کو چیلنج کر رہا
ہے۔۔۔ چین اشتراک کی بات کرتا ہے ، ڈویلپمنٹ اور ٹریڈ کی بات کرتا ہے اور بی آڑ
آئی منصوبہ اسی اشتراک کی دلیل ہے جس خود امریکی اتحادی جاپان سمیت قبرس سے اٹلی تک کے ممالک شامل ہو چکے ہیں۔۔۔ جبکہ بی آڑ آئی
منصوبے کے مقابلہ میں امریکہ نے پہلے ایشیاٗ پیسیفک جسے بعد میں انڈو پیسیفک
سٹریٹیجی کا نام دیا۔۔۔ نا کام ہوتی نظر آ رہی ہے اور اب یہ انڈو پیسیفک سٹریٹیجی کواڈز کا روپ دھار چکی ہے جو ایک فوجی اتحاد ہے
جس میں امریکہ اسٹریلیا ، جاپان اور بھارت
شامل ہیں۔۔۔
امریکہ کا بحرہ ہند
میں سب سے اہم پارٹنر بھارت۔۔۔ خود اوبور
کے نرغے میں ہے۔۔۔بنگلہ دیش، میانمار، نیپال ، سری لنکا اور پاکستان اوبور
کے عظیم الشان منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ اطلاعات کے مطابق بھوٹان کی بھی
جلد اس منصوبے میں شامل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔۔۔
مستقبل میں چین پاکستان روس ایران اور ترکی کا اتحاد ابھرتا
نظر آ رہا ہے۔۔۔ جسے بعض تجزیہ کار گولڈن سرکل کا نام بھی دے رہے ہیں۔۔۔ اس اتحاد
میں آذر بائیجان بھی شامل ہو گا ۔۔ پچھلے سال آذربائیجان نے ڈیفر پےمنٹ پر تیل
کی ترسیل کی آفر بھی کی تھی۔۔۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکی کیمپ سے نکل کر اگر پاکستان
چینی کیمپ میں آتا ہے تو اس کے کیا اثرات ہونگے
ہمارے خیال میں اس وقت امریکہ کو افغانستان کے معاملے میں
پاکستان کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ پھر پاکستان وہ واحد ملک ہے جو برصغیر، مشرق وسطٰی اور
سینٹرل ایشیا کو ایک دوسری سے ملاتا ہے۔۔۔ اس لئے خطے میں پاکستان کی اہمیت مسلم
ہے۔۔ ہاں سی پیک کے معاملے میں روڑے اٹکائے جائیں گے جبکہ آئی ایم ایف اور دیگر
معاشی عالمی ادارون کے ذریعے پاکستان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جائے گی۔۔۔
پاکستان پر اب یہ لازم ہو گیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے پاون
پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے اور قرضون سے جان چھڑائے۔۔
Comments
Post a Comment